واقعہ: غارِ ثور کی  حفاظت کا معجزہ اور توکل کا پیغام

📜 تعارف:

ہجرتِ مدینہ کا سفر اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی اہم اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں جب ظلم کی شدت بڑھ گئی، تو اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کو حکم ہوا کہ وہ مدینہ کی طرف ہجرت کریں۔ اس سفر کے آغاز میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو آج بھی ہر مسلمان کے لیے توکل، ایمان، اور قربانی کا درس بن کر موجود ہے۔ یہ واقعہ غارِ ثور میں چھپنے کا ہے۔

📍 پس منظر:

13 سال تک مکہ میں دعوت و تبلیغ کرنے کے باوجود، قریش اسلام دشمنی میں اتنے آگے بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ قریش کے سرداروں نے ایک خفیہ مشورہ میں فیصلہ کیا کہ مختلف قبیلوں کے جوان مل کر آپ ﷺ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم بدلہ نہ لے سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان کے منصوبے سے باخبر فرمایا اور ہجرت کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اطلاع دی اور وہی آپ کے ہمسفر بنے۔

🛑 غارِ ثور کی پناہ:

چونکہ قریش کو آپ ﷺ کے نکلنے کا شک ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے مدینہ جانے کے بجائے الٹی سمت میں واقع غارِ ثور کی طرف رخ کیا۔ یہ غار مکہ سے تقریباً 5 کلومیٹر جنوب کی طرف ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہاں آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تین دن اور تین راتیں قیام فرمایا۔

یہ غار اس لیے منتخب کیا گیا کہ کفار کی نظر اس طرف نہ جائے۔ یہ ایک چھوٹا سا، تنگ اور بلندی پر واقع غار ہے، جہاں پہنچنا آسان نہ تھا۔

🕷 اللہ کی قدرت کا مظاہرہ:

قریش کے لوگ ہر طرف آپ ﷺ کی تلاش میں نکلے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ غارِ ثور کے دہانے تک بھی آ پہنچے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو شدید فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے عرض کیا:

“یا رسول اللہ! اگر وہ نیچے جھانک لیں تو ہمیں دیکھ لیں گے۔”

آپ ﷺ نے بڑے اطمینان سے فرمایا:

“اے ابو بکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟”
(صحیح بخاری)

یہ وہ لمحہ تھا جہاں توکل علی اللہ کا عظیم نمونہ دیکھنے کو ملا۔

🕸 مکڑی کا جالا اور کبوتروں کا گھونسلا:

روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مکڑی کو حکم دیا کہ وہ فوراً غار کے دہانے پر جالا بن دے، اور دو کبوتروں نے وہیں گھونسلا بنا لیا اور انڈے دیے۔ جب کفار وہاں پہنچے تو جالے اور کبوتروں کے گھونسلے کو دیکھ کر کہنے لگے:

“اگر محمد یہاں ہوتے تو یہ جالا اور انڈے کیسے سلامت ہوتے؟”

یوں وہ واپس لوٹ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو محفوظ رکھا۔

🧕 حضرت اسماء کی قربانی:

ان دنوں میں حضرت ابو بکر کی بیٹی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روزانہ غار میں کھانے اور پانی پہنچاتیں۔ وہ پہاڑ پر چڑھتیں اور واپسی میں راستے کے نشانات مٹا دیتیں تاکہ کوئی پیچھا نہ کر سکے۔

ان کی خدمت، قربانی اور ہمت کو تاریخ نے ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں محفوظ کر لیا ہے۔ اسی خدمت پر انہیں “ذات النطاقین” کا لقب دیا گیا، کیونکہ انہوں نے اپنے کمر بند کو پھاڑ کر کھانے کے برتن باندھے تھے۔

🕊 غار سے مدینہ کا سفر:

تین دن کے بعد، جب حالات قدرے بہتر ہوئے، تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فُہیرہ، نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر کو ایک محفوظ راستے سے مدینہ کی طرف لے گئے۔ حضرت عبداللہ بن اُریقط ایک غیر مسلم گائیڈ تھے، لیکن راستہ جاننے میں ماہر تھے اور امانت دار تھے، اس لیے آپ ﷺ نے انہیں منتخب کیا۔

📚 سبق آموز نکات:

  1. توکل علی اللہ: حالات چاہے جیسے بھی ہوں، جب انسان اللہ پر بھروسا کرے، وہ غیب سے مدد فرماتا ہے۔
  2. حکمت اور احتیاط: ہجرت کے پورے منصوبے میں اعلیٰ حکمت، پلاننگ اور راز داری موجود تھی۔
  3. خواتین کا کردار: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔
  4. قربانی اور وفاداری: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جانثاری اور نبی ﷺ سے محبت بے مثال ہے۔
  5. اللہ کی حفاظت: اللہ اپنے نبی کی حفاظت کیسے کرتا ہے، یہ واقعہ ایک زندہ معجزہ ہے۔

📌 نتیجہ:

غارِ ثور کا واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ایمان مضبوط ہو، نیت خالص ہو، اور دل اللہ کے بھروسے پر مطمئن ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ آج بھی جب حالات مشکل ہوں، تو ہمیں یہی سبق یاد رکھنا چاہیے:

“اللہ ہمارے ساتھ ہے!”

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here