حضرت بلال حبشیؓ: توحید کے پروانے کی داستانِ وفا
اسلامی تاریخ کے وہ درخشاں ستارے جو ظلم و جبر کی تاریکیوں میں بھی ایمان کی روشنی کو مدھم نہ ہونے دیں، ان میں ایک تابناک نام حضرت بلال حبشیؓ کا ہے۔ آپؓ کا تعلق حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) سے تھا اور آپ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مکہ مکرمہ میں امیہ بن خلف جیسے ظالم کافر کے غلام تھے۔
غلامی کی زنجیر، مگر دل آزاد
حضرت بلالؓ جسمانی طور پر غلام تھے، مگر روح آزاد تھی۔ جب رسولِ اکرم ﷺ نے توحید کا پیغام پھیلانا شروع کیا، تو حضرت بلالؓ بھی اس روشنی سے منور ہو گئے۔ عرب معاشرہ غلام کو انسان بھی نہیں سمجھتا تھا، مگر اسلام نے بلالؓ کو عزت، عظمت، اور ایمان کی وہ معراج دی جس کی مثال رہتی دنیا تک دی جاتی رہے گی۔
ایمان کا اظہار، ظلم کا آغاز
جب امیہ بن خلف کو بلالؓ کے ایمان لانے کی خبر ملی تو اس کا چہرہ غیظ و غضب سے سرخ ہو گیا۔ اس نے ہر ممکن طریقے سے بلالؓ کو اسلام سے منحرف کرنے کی کوشش کی، لیکن بلالؓ نے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد جو ظلم کا سلسلہ شروع ہوا، وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
حضرت بلالؓ کو مکہ کی تپتی ہوئی ریت پر ننگے بدن لٹا دیا جاتا، ان کے سینے پر جلتے ہوئے پتھر رکھ دیے جاتے، اور انہیں کوڑے مارے جاتے۔ لیکن ان سب ظلم و ستم کے جواب میں حضرت بلالؓ کی زبان سے صرف ایک کلمہ نکلتا:
“اَحَدٌ، اَحَدٌ”
(اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے)
یہ الفاظ ان کے درد میں ڈوبے ہوتے، لیکن دل ایمان سے لبریز ہوتا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو اہلِ ایمان کے دلوں کو گرما دیتا اور کفار کے دلوں کو جھنجھوڑ دیتا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی قربانی
جب حضرت ابو بکرؓ نے حضرت بلالؓ کی یہ حالت دیکھی تو ان کا دل تڑپ اٹھا۔ انہوں نے امیہ بن خلف سے بلالؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا۔ امیہ نے سخت تضحیک کے ساتھ بھاری قیمت طلب کی۔ حضرت ابو بکرؓ نے بغیر کسی تردد کے وہ قیمت ادا کر دی اور حضرت بلالؓ کو آزاد کر دیا۔
رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر ملی تو آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
“ابو بکر! تم نے بلال کو آزاد کر کے اسلام کو ایک مجاہد دے دیا۔”
اسلام کے پہلے مؤذن
جب مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے اذان کے لیے ایک باایمان، بااخلاق اور باصدا انسان کی تلاش کی۔ حضرت بلالؓ کو یہ عظیم شرف بخشا گیا کہ وہ اسلام کے سب سے پہلے مؤذن بنے۔
جب حضرت بلالؓ اذان دیتے، تو ان کی آواز میں ایسی روحانی تاثیر ہوتی کہ سننے والوں کے دل پر وجد طاری ہو جاتا۔ “اللہ اکبر، اللہ اکبر” جب حضرت بلالؓ کی زبان سے نکلتا تو گویا اہلِ مدینہ کے دلوں میں ایمان کی تازگی دوڑ جاتی۔
رسول اللہ ﷺ حضرت بلالؓ کی اذان سن کر فرماتے:
“اے بلال! ہمیں راحت دو اذان کے ذریعے”
وصالِ نبوی ﷺ اور حضرت بلالؓ کا غم
جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا، حضرت بلالؓ پر ایسا غم طاری ہوا کہ انہوں نے اذان دینا ترک کر دیا۔ آپ کی آواز رندھ جاتی تھی، آنکھوں سے آنسو بہتے تھے، اور اذان مکمل نہ ہو پاتی تھی۔ انہوں نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور شام (موجودہ سوریہ) ہجرت کر گئے۔
ایک رات حضرت بلالؓ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا:
“اے بلال! تم ہمیں بھول گئے؟ ہماری زیارت نہیں کرو گے؟”
یہ خواب ایسا تھا کہ حضرت بلالؓ فوراً مدینہ واپس آئے۔ اہلِ مدینہ انہیں دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھے۔ کسی نے عرض کیا:
“بلال! ایک بار اذان دے دو، دل ترس گئے ہیں۔”
جب حضرت بلالؓ نے اذان دی اور “اشہد ان محمدًا رسول اللہ” پر پہنچے، تو مدینہ کے ہر فرد کی آنکھ اشکبار ہو گئی۔ صحابہؓ نے محسوس کیا کہ جیسے رسول اللہ ﷺ پھر سے تشریف لے آئے ہوں۔
وصال اور مقام
حضرت بلالؓ نے شام ہی میں اپنے باقی ایام گزارے اور وہیں تقریباً 60 ہجری میں وفات پائی۔ ان کی قبر دمشق (دمشق، سوریہ) میں واقع ہے جو آج بھی زیارت گاہ ہے۔
آپ نے مرنے سے پہلے فرمایا:
“کل محمدؐ سے ملاقات ہوگی۔”
یہ فقرہ ان کی زندگی کی آخری خوشی تھی۔
سبق آموز نکات
1.ایمان پر استقامت: دنیا کی تمام اذیتیں برداشت کیں، مگر کلمۂ توحید سے انکار نہ کیا۔
2.آزادی کی حقیقی تعریف: جسم غلام ہو سکتا ہے، مگر دل اگر اللہ کے ساتھ ہو تو انسان آزاد ہے۔
3.رسول اللہ ﷺ سے بے پناہ محبت: حضرت بلالؓ کا غم رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد ناقابلِ بیان تھا۔
4.اسلام میں رنگ و نسل کا امتیاز نہیں: حضرت بلالؓ کالے رنگ اور غلامی کے باوجود اسلام میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔