حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان، دعوتِ توحید اور آگ کا معجزہ
اسلامی تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو “خلیل اللہ” یعنی اللہ کا دوست کہا جاتا ہے۔ آپ کا شمار اولوالعزم پیغمبروں میں ہوتا ہے۔ آپ کی زندگی قربانی، صبر، اور توحید کے عملی نمونے سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُس دور میں اللہ کی وحدانیت کا پرچم بلند کیا جب پورا معاشرہ شرک میں ڈوبا ہوا تھا۔
توہم پرستی کے خلاف پہلا قدم
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بت پرست قوم میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آزر بھی بت تراش تھے اور خود بھی بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن سے ہی غور و فکر کرنے والے انسان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے اردگرد لوگ پتھروں کی مورتیوں کو خدا مان کر ان کے آگے جھک رہے ہیں، ان سے دعائیں مانگ رہے ہیں، حالانکہ وہ نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ کسی کو فائدہ دے سکتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عقل و شعور کی بنیاد پر ان بتوں کی عبادت کو مسترد کر دیا اور صرف ایک اللہ کو اپنا رب مانا۔ پھر آپ نے اپنی قوم کو بھی اللہ کی طرف بلانا شروع کیا اور کہا:
میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم پوجتے ہو، میں صرف اس رب کی طرف متوجہ ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔
(سورۃ الانعام: 76-79)
بت شکن واقعہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف زبان سے نہیں، بلکہ عمل سے بھی اپنی قوم کو حقیقت دکھانے کی کوشش کی۔ ایک دن جب پوری قوم ایک تہوار منانے شہر سے باہر گئی، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بت خانے میں داخل ہوئے۔ آپ نے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور صرف سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی بھی رکھ دی۔
جب لوگ واپس آئے تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے پوچھا:
“یہ کس نے کیا؟”
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
“یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہوگا، اس سے ہی پوچھ لو!”
قوم کو معلوم تھا کہ یہ بت بول نہیں سکتے، لیکن ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی، تو وہ خاموش ہو گئے۔ لیکن حق قبول کرنے کے بجائے وہ ضد پر اتر آئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
آگ میں ڈالنے کا فیصلہ
قوم نے مشورہ کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلا دیا جائے تاکہ کوئی اور ان کے نقشِ قدم پر نہ چلے۔ انہوں نے بہت بڑی آگ جلائی، اتنی بڑی کہ پرندے بھی اس کے اوپر سے نہیں گزر سکتے تھے۔ آگ اتنی شدید تھی کہ کوئی انسان قریب جا کر کسی کو اندر نہیں پھینک سکتا تھا، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق کے ذریعے آگ میں پھینکا گیا۔
لیکن اُس لمحے اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کے لیے معجزہ دکھایا۔
قرآنی معجزہ
جیسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا، اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا:
“اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا!”
(سورۃ الانبیاء: آیت 69)
اللہ کا حکم جاری ہوا، اور وہ دہکتی ہوئی آگ ٹھنڈی اور محفوظ ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ صرف زندہ سلامت رہے، بلکہ انہیں آگ نے کوئی نقصان تک نہ پہنچایا۔ یہ ایک عظیم معجزہ تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔
سبق اور پیغام
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ
-
حق پر ڈٹے رہنا ایمان کی علامت ہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
-
توحید کی دعوت کے لیے قربانی دینی پڑے تو وہ دینی چاہیے۔
-
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ضرور ہے، مگر ان کی حفاظت بھی خود کرتا ہے۔
نتیجہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عظیم واقعہ اسلام کی بنیادوں میں سے ایک ہے جو ہمیں حوصلہ، استقامت، اور یقین کا درس دیتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے عقیدے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اللہ پر مکمل بھروسا رکھیں۔